چاہت جی کا روگ ہے پیارے جی کو روک لگاؤ کیوں
جیسی کرنی ویسی بھرنی اب اس پر پچھتاؤ کیوں
سرخ ہیں آنکھیں زرد ہے چہرہ رنگوں کی ترتیب عجیب
اس بے رنگ زمانے کو تم ایسے رنگ دکھاؤ کیوں
دل کا در کب بند ہوا ہے کوئی آئے کوئی جائے
جو آئے اور کبھی نہ جائے وہ مہمان بلاؤ کیوں
صبح کا بھولا شام کو واپس گھر آئے تو غنیمت ہے
جن گلیوں میں جا کے نہ لوٹو ان گلیوں میں جاؤ کیوں
آس کی ڈور بہت نازک تھی بوجھ پڑا تو ٹوٹ گئی
تیز ہوائیں جب چلتی ہوں اونچی پیچ لڑاؤ کیوں
ساری رتیں آنی جانی ہیں ہر رب کا ہے اپنا رنگ
رنگ کا دھوکا کھانے والو اپنا رنگ اڑاؤ کیوں
آس کا دامن چھوٹ گیا تو ہاتھوں کو آزاد نہ دو
اپنی چادر چھوٹی ہو تو پاؤں بہت پھیلاؤ کیوں
پیار کی شدت دل کی حدت باقرؔ اس کو راس نہیں
گرم ہوا کے جھونکوں سے اس پھول کو تم کمہلاؤ کیوں
غزل
چاہت جی کا روگ ہے پیارے جی کو روک لگاؤ کیوں
سجاد باقر رضوی