سوز دعا سے ساز اثر کون لے گیا
اک سنگ در سے نسبت سر کون لے گیا
ہر شے ہے ناتمام یہ احساس کیوں ہے آج
ہر عیب سے جواز ہنر کون لے گیا
کس نے مری نگاہ سے پردے اٹھا دئے
اک رنج آگہی کہ ادھر کون لے گیا
عرصہ ہوا کے پاؤں کے نیچے زمیں نہیں
وہ نقش پا وہ راہ گزر کون لے گیا
میرے سفینے میرے لہو میں نہا گئے
میرے سراب کے وہ بھنور کون لے گیا
تاخیر وقت دید تری برہمی کا ڈر
کتنا حسین ڈر تھا وہ ڈر کون لے گیا
حیراں ہے عقل شاذؔ کہ وحشت کدھر گئی
بستی اداس ہے کہ کھنڈر کون لے گیا
غزل
سوز دعا سے ساز اثر کون لے گیا
شاذ تمکنت