EN हिंदी
بوندیں پڑی تھیں چھت پہ کہ سب لوگ اٹھ گئے | شیح شیری
bunden paDi thin chhat pe ki sab log uTh gae

غزل

بوندیں پڑی تھیں چھت پہ کہ سب لوگ اٹھ گئے

راج نرائن راز

;

بوندیں پڑی تھیں چھت پہ کہ سب لوگ اٹھ گئے
قدرت کے آدمی سے عجب سلسلے رہے

وہ شخص کیا ہوا جو مقابل تھا! سوچیے!
بس اتنا کہہ کے آئنے خاموش ہو گئے

اس آس پر کہ خود سے ملاقات ہو کبھی
اپنے ہی در پہ آپ ہی دستک دیا کئے

پتے اڑا کے لے گئی اندھی ہوا کہیں
اشجار بے لباس زمیں میں گڑے رہے

کیا بات تھی کہ ساری فضا بولنے لگی!
کچھ بات تھی کہ دیر تلک سوچتے رہے

ہر سنسناتی شے پہ تھی چادر دھوئیں کی رازؔ
آکاش میں شفق تھی نہ پانی پہ دائرے

میں نے غزل کہی ہے منورؔ مگر کہاں!
پوچھے گا رازؔ کون! میاں شعر کچھ کہے؟