بوند پانی کو مرا شہر ترس جاتا ہے
اور بادل ہے کہ دریا پہ برس جاتا ہے
آتشیں دھوپ سے ملتی ہے کبھی جس کو نمو
وہی پودا کبھی بارش سے جھلس جاتا ہے
راہ تشکیل وہ ارباب وفا نے کی تھی
اب جہاں قافلۂ اہل ہوس جاتا ہے
ہو چکی بوئے وفا شہر سے رخصت کب کی
کوئی دن ہے کہ پھلوں میں سے بھی رس جاتا ہے
آدمی پر وہ کڑا وقت بھی آتا ہے کہ جب
سانس لینے پس دیوار قفس جاتا ہے
تم بھرے شہر میں کس ڈھنگ سے رہتے ہو نسیمؔ
گویا ویرانے میں جا کر کوئی بس جاتا ہے
غزل
بوند پانی کو مرا شہر ترس جاتا ہے
نسیم سحر