بوند پانی کی ہوں تھوڑی سی ہوا ہے مجھ میں
اس بضاعت پہ بھی کیا طرفہ انا ہے مجھ میں
یہ جو اک حشر شب و روز بپا ہے مجھ میں
ہو نہ ہو اور بھی کچھ میرے سوا ہے مجھ میں
صفحۂ دہر پہ اک راز کی تحریر ہوں میں
ہر کوئی پڑھ نہیں سکتا جو لکھا ہے مجھ میں
کبھی شبنم کی لطافت کبھی شعلے کی لپک
لمحہ لمحہ یہ بدلتا ہوا کیا ہے مجھ میں
شہر کا شہر ہو جب عرصۂ محشر کی طرح
کون سنتا ہے جو کہرام مچا ہے مجھ میں
توڑ کر ساز کو شرمندۂ مضراب نہ کر
اب نہ جھنکار ہے کوئی نہ صدا ہے مجھ میں
وقت نے کر دیا صابرؔ مجھے صحرا بہ کنار
اک زمانے میں سمندر بھی بہا ہے مجھ میں
غزل
بوند پانی کی ہوں تھوڑی سی ہوا ہے مجھ میں
نوبہار صابر