EN हिंदी
بوئے مے پا کے میں چلتا ہوا مے خانے کو | شیح شیری
bu-e-mai pa ke main chalta hua mai-KHane ko

غزل

بوئے مے پا کے میں چلتا ہوا مے خانے کو

جلیلؔ مانک پوری

;

بوئے مے پا کے میں چلتا ہوا مے خانے کو
اک پری تھی کہ لگا لے گئی دیوانے کو

میرے ساقی سا کہاں کوئی پلانے والا
آنکھیں کہتی ہیں لٹا دیجئے مے خانے کو

سختیٔ عشق اٹھانے کا زمانہ نہ رہا
اب تو ہے پھول بھی پتھر ترے دیوانے کو

ہاتھ میں آتے ہی کیا پاؤں نکالے ساقی
آفریں ہے ترے چلتے ہوے پیمانے کو

اس میں اے اہل وطن رائے تمہاری کیا ہے
کہتی ہے وحشت دل گھر سے نکل جانے کو

چل گیا کام یہاں جام چلے یا نہ چلے
بادہ کش لوٹ گئے دیکھ کے مے خانے کو

دل سلگتے رہیں پروا نہیں ہوتی کچھ انہیں
شمع اچھی کہ جلا دیتی ہے پروانے کو

شامل دور ہوں اغیار ستم ہے ساقی
اپنے پیمانے سے بڑھنے دے نہ پیمانے کو

حسن خدمت کا صلہ دیکھیے یوں پاتے ہیں
رخ ملا آئنے کو زلف ملی شانے کو

چال ہے مست نظر مست ادا میں مستی
جیسے آتے ہیں وہ ٹوٹے ہوئے مے خانے کو

ابر میں برق کا رہ رہ کے چمکنا کیسا
یہ بھی اک اس کی ہے شوخی مرے تڑپانے کو

اس میں اے پردہ نشیں پردہ دری کس کی ہے
دیکھنے آتی ہے خلقت ترے دیوانے کو

خوب انصاف ہے اے بادہ کشو کیا کہنا
تم کو تسکین ہو گردش ہو جو پیمانے کو

ہے بڑی چیز لگی دل کی خدا جس کو دے
آگ میں کود پڑا دیکھیے پروانے کو

ہو کے پابند جنوں سب سے رہائی پائی
بیڑیاں لپٹی تھیں لاکھوں ترے دیوانے کو

کھنچ چکی تیغ تو اب ہے یہ رکاوٹ کیسی
آپ تڑپانے کو آئے ہیں کہ ترسانے کو

کوئی ایسی بھی ہے صورت ترے صدقے ساقی
رکھ لوں میں دل میں اٹھا کر ترے مے خانے کو

بت پندار کو توڑو تو ہو دل پاک جلیلؔ
تم خدا خانہ بناؤ اسی بت خانے کو