بوئے گل باد صبا لائی بہت دیر کے بعد
میرے گلشن میں بہار آئی بہت دیر کے بعد
چھپ گیا چاند تو جلووں کی تمنا ابھری
آرزوؤں نے لی انگڑائی بہت دیر کے بعد
نرگسی آنکھوں میں یہ اشک ندامت توبہ
موج مے شیشوں میں لہرائی بہت دیر کے بعد
صحن گلشن میں حسیں پھول کھلے تھے کب سے
ہم ہوئے خود ہی تماشائی بہت دیر کے بعد
مہر و شبنم میں ملاقات ہوئی وقت سحر
زندگی موت سے ٹکرائی بہت دیر کے بعد
مئے گل بٹ گئی آسودہ لبوں میں پہلے
تشنہ کاموں میں شراب آئی بہت دیر کے بعد
ذہن بھٹکا کیا دشت غم دوراں میں سلامؔ
شب غم نیند مجھے آئی بہت دیر کے بعد
غزل
بوئے گل باد صبا لائی بہت دیر کے بعد
سلام سندیلوی