بتوں سے کچھ نہ ہوا جو ہوا خدا سے ہوا
دوا سے کچھ نہ بنا جو ہوا دعا سے ہوا
بھرم درازئی دامان یار کا نہ رہا
عجیب کام مرے دست نارسا سے ہوا
دلوں کو صبر و سکوں تو نہ مل سکا لیکن
کوئی تو کام تری چشم با حیا سے ہوا
لگا دی آگ سی جنگل میں نابکاروں کے
یہ فائدہ تو مری آتشیں نوا سے ہوا
دلوں کو عشق نے بخشی حیات غم افزا
عجب نشانہ خطا تیر بے خطا سے ہوا
قلندروں نے الٹ دی بساط مے خانہ
نہ رند سے ہوا اور کچھ نہ پارسا سے ہوا
مخالفوں کی بھی جو دشمنی سے ہو نہ سکا
وہ کام اک مرے دم ساز و آشنا سے ہوا
نہ کچھ بھی کر سکے اصحاب فیل تھے تو بہت
جو کچھ ہوا ترے درویش بے نوا سے ہوا
گھٹن تو دل کی رہی قصر مرمریں میں بھی
نہ روشنی سے ہوا کچھ نہ کچھ ہوا سے ہوا
وہ ایک قتل کا الزام سر پہ تھا سو رہا
قصاص سے نہ ہوا کچھ نہ خوں بہا سے ہوا
غزل
بتوں سے کچھ نہ ہوا جو ہوا خدا سے ہوا
خالد حسن قادری