بتوں کو فائدہ کیا ہے جو ہم سے جنگ کرتے ہیں
خفا جو زندگی سے ہوں انہیں کیوں تنگ کرتے ہیں
ادھر اودھر سے پھر تیری گلی میں دل لے آتا ہے
طرف دیر و حرم کے جب کبھی آہنگ کرتے ہیں
کسی اور ہی کے گھر کو کیجیو صیاد تو تزئیں
ہم اپنے خون ہی سے اس قفس پر رنگ کرتے ہیں
بتنگ آ کر کے عالم نے گریباں چاک کر ڈالا
بتاں پھر کس لیے جامے کو اپنے تنگ کرتے ہیں
اسے تو تاب دم کی بھی نہیں جوں آئنہ خوباں
رضاؔ کی طرف سے کیوں اپنے جی کو تنگ کرتے ہیں
غزل
بتوں کو فائدہ کیا ہے جو ہم سے جنگ کرتے ہیں
رضا عظیم آبادی