بتو یہ شیشۂ دل توڑ دو خدا کے لیے
جو سنگ دل ہو تو کیا چاہیئے جفا کے لیے
سوال یار سے کیسا کمال الفت کا
کہ ابتدا بھی تو ہے شرط انتہا کے لیے
خدا سے تجھ کو صنم مانگتے تو مل جاتا
مگر ادب نے اجازت نہ دی دعا کے لیے
عذاب آتش فرقت سے کانپتا تھا دل
ہزار شکر جہنم ملا سزا کے لیے
نہ دل لگا کے ہوا مجھ سے عشق میں پرہیز
بگڑ گیا جو کسی نے کہا دوا کے لیے
ملا انہیں بھی تلون مجھے بھی یک رنگی
خصوصیت نہ رہی صرصر و صبا کے لیے
خدا نے کام دئے ہیں جدا جدا سب کو
صنم جفا کے لیے ہیں تو ہم وفا کے لیے
جہاں نورد رہے ہم تلاش مطلب میں
چلے نہ ایک قدم غیر مدعا کے لیے
مشاعرہ میں پڑھو شوق سے غزل بیمارؔ
کہ مستعد ہیں سخن سنج مرحبا کے لیے
غزل
بتو یہ شیشۂ دل توڑ دو خدا کے لیے
شیخ علی بخش بیمار