EN हिंदी
بتاں جب کہ زلف دوتا باندھتے ہیں | شیح شیری
butan jab ki zulf-e-dota bandhte hain

غزل

بتاں جب کہ زلف دوتا باندھتے ہیں

مرزا ابراہیم بیگ مقتول

;

بتاں جب کہ زلف دوتا باندھتے ہیں
گرہ میں دل مبتلا باندھتے ہیں

نہیں بنتی بلبل سے اپنی چمن میں
ہم اب آشیانہ جدا باندھتے ہیں

جفا کھینچیں گے پر نہ ہاریں گے جی کو
یہ ہم تم سے شرط وفا باندھتے ہیں

گرہ دے کے سر پر جو بالوں کا جوڑا
یہ نازک بدن خوش ادا باندھتے ہیں

ہر اک تار میں اس کے دل ہائے عشاق
بہم جمع کر کے ملا باندھتے ہیں

میاں حال‌ مقتولؔ دیکھا نہیں کیا
کمر آپ کس پر بھلا باندھتے ہیں