EN हिंदी
بتان خشت و سنگ سے کلام کر کے آ گیا | شیح شیری
butan-e-KHisht-o-sang se kalam kar ke aa gaya

غزل

بتان خشت و سنگ سے کلام کر کے آ گیا

راحت سرحدی

;

بتان خشت و سنگ سے کلام کر کے آ گیا
کہ میں تمہارے شہر میں بھی شام کر کے آ گیا

وہاں کسی کو یاد بھی نہیں تھا میرا نام تک
جہاں میں اپنی زندگی تمام کر کے آ گیا

گلی میں کھیلتا ہوا ملا تھا اپنا بچپنا
جسے میں حسرتوں بھرا سلام کر کے آ گیا

تمہارا نام پھر کرید کر اداس پیڑ پر
خزاں میں فصل گل کا اہتمام کر کے آ گیا

تکلفات میں گزر گئی حیات سرحدیؔ
کہ جیسے اجنبی کے گھر قیام کر کے آ گیا