بتان خشت و سنگ سے کلام کر کے آ گیا
کہ میں تمہارے شہر میں بھی شام کر کے آ گیا
وہاں کسی کو یاد بھی نہیں تھا میرا نام تک
جہاں میں اپنی زندگی تمام کر کے آ گیا
گلی میں کھیلتا ہوا ملا تھا اپنا بچپنا
جسے میں حسرتوں بھرا سلام کر کے آ گیا
تمہارا نام پھر کرید کر اداس پیڑ پر
خزاں میں فصل گل کا اہتمام کر کے آ گیا
تکلفات میں گزر گئی حیات سرحدیؔ
کہ جیسے اجنبی کے گھر قیام کر کے آ گیا
غزل
بتان خشت و سنگ سے کلام کر کے آ گیا
راحت سرحدی