بت یہاں ملتے نہیں ہیں یا خدا ملتا نہیں
عزم مستحکم تو ہو دنیا میں کیا ملتا نہیں
ہم سفیران جنوں یوں ہم سے آگے بڑھ گئے
قافلہ کیا ہے غبار قافلہ ملتا نہیں
اپنی صورت دیکھنا ہو اپنے دل میں دیکھیے
دل سا دنیا میں کوئی بھی آئنہ ملتا نہیں
دے دیا ہے آپ کو دل اب حفاظت کیجیے
ہر خزانے میں یہ لعل بے بہا ملتا نہیں
ڈھونڈھتا پھرتا ہے مجھ کو کیوں فریب رنگ و بو
میں وہاں ہوں خود جہاں اپنا پتہ ملتا نہیں
غزل
بت یہاں ملتے نہیں ہیں یا خدا ملتا نہیں
عبدالطیف شوق