EN हिंदी
بت یہاں ملتے نہیں ہیں یا خدا ملتا نہیں | شیح شیری
but yahan milte nahin hain ya KHuda milta nahin

غزل

بت یہاں ملتے نہیں ہیں یا خدا ملتا نہیں

عبدالطیف شوق

;

بت یہاں ملتے نہیں ہیں یا خدا ملتا نہیں
عزم مستحکم تو ہو دنیا میں کیا ملتا نہیں

ہم سفیران جنوں یوں ہم سے آگے بڑھ گئے
قافلہ کیا ہے غبار قافلہ ملتا نہیں

اپنی صورت دیکھنا ہو اپنے دل میں دیکھیے
دل سا دنیا میں کوئی بھی آئنہ ملتا نہیں

دے دیا ہے آپ کو دل اب حفاظت کیجیے
ہر خزانے میں یہ لعل بے بہا ملتا نہیں

ڈھونڈھتا پھرتا ہے مجھ کو کیوں فریب رنگ و بو
میں وہاں ہوں خود جہاں اپنا پتہ ملتا نہیں