EN हिंदी
بت پرستی نے کیا عاشق یزداں مجھ کو | شیح شیری
but-parasti ne kiya aashiq-e-yazdan mujhko

غزل

بت پرستی نے کیا عاشق یزداں مجھ کو

ارشد علی خان قلق

;

بت پرستی نے کیا عاشق یزداں مجھ کو
پردۂ کفر میں حاصل ہوا ایماں مجھ کو

جب تلک زلف رخ یار کا دیوانہ رہا
پیر سمجھا کئے ہندو و مسلماں مجھ کو

چاہئے پیرہن دامن تیغ او قاتل
تیرے خنجر کا ہے درکار گریباں مجھ کو

اب درندازی اغیار نہیں چل سکتی
خوب پہچانتے ہیں یار کے درباں مجھ کو

شرم ایذا سے مرے دل کو یقیں ہے اے موت
منہ نہ دکھلائے گی صبح شب ہجراں مجھ کو

خال رخ خضر رہ کفر نہ ہوتا جو ترا
دام میں لا ہی چکے تھے یہ مسلماں مجھ کو

چشم خونخوار کا آغوش مژہ میں ہے یہ قول
زیب ہے کہیے اگر شیر نیستاں مجھ کو

جس میں کچھ ہوتی ہے امید وصال محبوب
اتنی کھلتی نہیں وہ گردش دوراں مجھ کو

یہ نہ معلوم تھا اس رنگ سے آئے گی بہار
توبۂ مے نے کیا سخت پشیماں مجھ کو

عشق نے منصب عشاق جو تقسیم کئے
باغ بلبل کو دیا کوچۂ جاناں مجھ کو

سوزش دل سے یہ پروانے کی صورت تڑپا
دیکھ کر رونے لگی شمع شبستاں مجھ کو

مجھ گراں بار کے محشر میں تلیں جب اعمال
نہ سبک کیجیو اے پلۂ میزاں مجھ کو

کون اندیشۂ فردا کا ملال آج کرے
موسم گل میں نہیں فکر زمستاں مجھ کو

تیرے ہوتے ہوئے اے غیرت خورشید نہ لوں
کھوٹے داموں بھی ملے گر مہ کنعاں مجھ کو

صف‌ کشی اپنی دکھاتا ہے مجھے کیا اشرار
یاد ہے اس کی صف آرائی مژگاں مجھ کو

لب جاں بخش صنم کا ہوں جو عاشق تو لوگ
جانتے ہیں خضر چشمۂ حیواں مجھ کو

ناتواں وہ ہوں عجب کیا صفت پائے ملخ
مور لے جائے اگر پیش سلیماں مجھ کو

میرے ظلمت کدے میں لائیں جو روشن کر کے
کرم شب آئے نظر شمع شبستاں مجھ کو

سد باب اب مرا اغیار عبث کرتے ہیں
نکہت گل ہوں نہیں کچھ غم درباں مجھ کو

دل‌ جلا میں ہوں وہ عاشق کہ شب ہجر قلقؔ
شمع بھی رونے لگی دیکھ گریباں مجھ کو