بت کافر جو تو مجھ سے خفا ہو
نہیں کچھ خوف میرا بھی خدا ہے
یہ در پردہ ستاروں کی صدا ہے
گلی کوچہ میں گر کہیے بجا ہے
رقیبوں میں وہ ہوں گے سرخ رو آج
ہمارے قتل کا بیڑا لیا ہے
یہی ہے تار اس مطرب کا ہر روز
نیا اک راگ لا کر چھیڑتا ہے
شنیدہ کے بود مانند دید
تجھے دیکھا ہے حوروں کو سنا ہے
پہنچتا ہوں جو میں ہر روز جا کر
تو کہتے ہیں غضب تو بھی رساؔ ہے
غزل
بت کافر جو تو مجھ سے خفا ہے
بھارتیندو ہریش چندر