بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اس میں خدا کی قسم
مرا طائر دل اسی قید میں ہے مجھے زلف کے دام بلا کی قسم
نہیں بھاتا مجھے کوئی رشک پری کوئی لاکھ حسیں ہو بلا سے مری
مرا دل ترا عاشق شیفتہ ہے مجھے تیرے ہی ناز و ادا کی قسم
مرے دل کو ذرا نہیں تاب و تعب کہ اٹھاؤں تمہارا یہ قہر و غضب
مرے قتل میں دیر نہ چاہئے اب تمہیں اپنے ہی جور و جفا کی قسم
نہ تو حور ہی کو یہ ملا ہے نمک نہ پری ہی کے رخ میں ہے ایسی چمک
ترے سامنے پھیکے ہیں شمس و قمر مجھے ترے ہی رخ کی ضیا کی قسم
مجھے عطر حنا کی نہیں ہے ہوا مجھے پھولوں سے ہوتا ہے داغ سوا
کبھی نکہت زلف سنگھا دے صبا تجھے نافۂ مشک خطا کی قسم
مرے بعد سہے گا نہ کوئی بھی غم نہ اٹھے گا کسی سے یہ رنج و الم
کرو ترک تم آج سے ظلم و ستم تمہیں اپنی ہی مہر و وفا کی قسم
کبھی درد سے روتا ہو آغاؔ اگر تو ہنسی سے یہ کہتا ہے وہ گل تر
مرا مان کہا ارے نالہ نہ کر تجھے بلبل نغمہ سرا کی قسم
غزل
بت غنچہ دہن پہ نثار ہوں میں نہیں جھوٹ کچھ اس میں خدا کی قسم
آغا اکبرآبادی