برا برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے
ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے
تم اپنے دیس کی سوغات ہو ہمارے لیے
کہ حسن تحفۂ آب و ہوا بھی ہوتا ہے
مقابلے پہ کمر بستہ ہم نہیں ہوتے
اگر شکست کا خطرہ ذرا بھی ہوتا ہے
تمہارے شہر میں ہے جی لگا ہوا ورنہ
مسافروں کے لیے راستہ بھی ہوتا ہے
وہ چہرہ ایک تصور بھی ہے حقیقت بھی
دریچہ بند بھی ہوتا ہے وا بھی ہوتا ہے
ہم اے شعورؔ اکیلے کبھی نہیں ہوتے
ہمارے ساتھ ہمارا خدا بھی ہوتا ہے
غزل
برا برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے
انور شعور