EN हिंदी
بنیاد جہاں میں کجی کیوں ہے | شیح شیری
buniyaad-e-jahan mein kaji kyun hai

غزل

بنیاد جہاں میں کجی کیوں ہے

شہریار

;

بنیاد جہاں میں کجی کیوں ہے
ہر شے میں کسی کی کمی کیوں ہے

کیوں چہرۂ خار شگفتہ ہے
اور شاخ گلاب جھکی کیوں ہے

وہ وصل کا دن کیوں چھوٹا تھا
یہ ہجر کی رات بڑی کیوں ہے

جس بات سے دل میں ہلچل ہے
وہ بات لبوں پہ رکی کیوں ہے

مت دیکھ کہ کون ہے پروانہ
یہ سوچ کہ شمع جلی کیوں ہے

نہ تھے خواب تو آنسو ہی ہوتے
مرا کاسۂ چشم تہی کیوں ہے