EN हिंदी
بلندیوں سے اتر کر کبھی پکار مجھے | شیح شیری
bulandiyon se utar kar kabhi pukar mujhe

غزل

بلندیوں سے اتر کر کبھی پکار مجھے

کاوش بٹ

;

بلندیوں سے اتر کر کبھی پکار مجھے
ازل سے تیرے کرم کا ہے انتظار مجھے

ترے جمال شفق رنگ کا ظہور ہوں میں
ملا ہے تیری تمازت سے یہ وقار مجھے

طویل عمر سے فکر و نظر کی قید میں ہوں
نگاہ وقت کی سولی سے اب اتار مجھے

تری وفا کا بھرم میری ذات سے منسوب
مخالفوں کی صفوں میں نہ کر شمار مجھے

حقیقتوں کو سمجھ مصلحت شناس نہ بن
فصیل جبر سے خود بھی نکل ابھار مجھے

تری طلب کی کڑی دھوپ میں بھی ہوں لیکن
عطا ہو ابر کرم پیڑ سایہ دار مجھے

میں تیرگی کو امانت تری سمجھتا ہوں
تو روشنی ہے تو کوئی کرن اتار مجھے