EN हिंदी
بلندیوں پہ زمانے ہے کیا کیا جائے | شیح شیری
bulandiyon pe zamane hai kya kiya jae

غزل

بلندیوں پہ زمانے ہے کیا کیا جائے

نور العین قیصر قاسمی

;

بلندیوں پہ زمانے ہے کیا کیا جائے
ہمیں بھی چاند پہ جانا ہے کیا کیا جائے

وہ جس کے سامنے کھلتے نہیں ہیں لب میرے
اسی کو شعر سنانا ہے کیا کیا جائے

ہوس کی زد پہ تڑپتی سسکتی دنیا میں
وقار اپنا بچانا ہے کیا کیا جائے

نکل پڑا ہے کوئی گھر سے بجلیاں لے کر
مرا چمن ہی نشانہ ہے کیا کیا جائے

بہار سے ہی ڈرے بیٹھے ہیں چمن والے
ابھی خزاں کو بھی آنا ہے کیا کیا جائے