EN हिंदी
بلند فکر کی ہر شعر سے عیاں ہو رمق | شیح شیری
buland fikr ki har sher se ayan ho ramaq

غزل

بلند فکر کی ہر شعر سے عیاں ہو رمق

ڈاکٹر اعظم

;

بلند فکر کی ہر شعر سے عیاں ہو رمق
مرے قلم سے ادا ہو کبھی غزل کا حق

اداس اداس ہیں انساں ہر ایک چہرہ فق
یہ شہر شہر ہے یا دشت ہے یہ لق و دق

میں دل کی بات کہوں یوں کہ دل تلک پہنچے
نہ ہوں کنائے ہی مبہم نہ استعارے ادق

چلو سمیٹ کے آفس کو اپنے گھر کی طرف
افق کے پار وہ دیکھو اتر رہی ہے شفق

ذرا سا علم و ہنر پا گئے تو کچھ کم ظرف
سمجھ رہے ہیں سبھی کو ہی احقرواحمق

پھر احتجاج کے رستے پہ کیوں چلیں گے ہم
ہمیں جو ملتا رہے آپ سے ہمارا حق

تعلقات میں قائم رکھیں بھروسے کو
کہ شک ہمیشہ ہی کرتا رہا ہے رشتے شق

کسی کتاب میں ملتا نہیں ہے ذکر اعظمؔ
ہمیں سکھائے ہیں اس زندگی نے ایسے سبق