بلند برق کے آگے بھی حوصلہ رکھنا
جلے جو ایک نشیمن تو دوسرا رکھنا
جو آزمانا ہو مجھ کو تو پھر مرے آگے
خم و صراحی نہیں سارا مے کدہ رکھنا
وہ سچ کی کھوج میں کس کس کا دیکھتا چہرہ
جو خود ہی بھول گیا ساتھ آئنہ رکھنا
کہیں اگا ہو وہ گلشن ہو یا کہ صحرا ہو
ہمیشہ پھول کی خوشبو سے واسطہ رکھنا
دلوں کے بیچ میں دیوار تاننے والو
کھلی ہوا میں نکلنے کا راستہ رکھنا
وہ اجنبی کہ شناسا ہو یہ خیال رہے
ملو جو اس سے تو تھوڑا سا فاصلہ رکھنا
صعوبتوں سے جو دل ٹوٹنے لگے کوثرؔ
نظر کے سامنے تصویر کربلا رکھنا
غزل
بلند برق کے آگے بھی حوصلہ رکھنا
مختار احمد کوثر