بلند عزم ہو گیا پروں میں کاٹ آ گئی
ہوا تو اور طائروں کی ہمتیں بڑھا گئی
کھلے گا دل کا پھول بھی ذرا سا انتظار کر
ابھی یہ جاں فزا خبر صبا مجھے سنا گئی
حصار ذات سے پرے جہان ایک اور ہے
مجھے یہ وسعت نظر نیا افق دکھا گئی
بنائے تھے جو آرزو نے ساحلوں پہ بیٹھ کر
تمام ریت کے وہ گھر بس ایک موج ڈھا گئی
ہمیں تو خوف تھا یہی کہ خاک کر نہ دیں کہیں
لگی جو آگ عشق کی تو آئینہ بنا گئی
پرائے آنچلوں میں وہ تو چھاؤں ڈھونڈھتا رہا
ادھر ہوائے بے رحم ردا مری اڑا گئی
چلو کہ کل ملیں گے پھر یہ قصے کل پہ چھوڑ دو
زمیں پہ قمقمے جلے فلک پہ رات چھا گئی
جو نصرتؔ آج کھو گئی اداسیوں میں دو گھڑی
گمان سب کو یہ ہوا غموں سے مات کھا گئی

غزل
بلند عزم ہو گیا پروں میں کاٹ آ گئی
نصرت مہدی