بلا رہا ہے مجھے آسماں تمہاری طرف
جلا کے نکلا ہوں سب آشیاں تمہاری طرف
میں جانتا ہوں کہ سارے جہاں ہیں ختم یہاں
مجھے ملے گا نہ کوئی جہاں تمہاری طرف
خموشیوں کا بس اک سلسلہ ہے دور تلک
نہ کوئی لفظ نہ کوئی زباں تمہاری طرف
ہر ایک جیتا ہے وسعت میں کائناتوں کے
کوئی بناتا نہیں ہے مکاں تمہاری طرف
مرے ہوؤں کو کوئی مارے کس طرح آخر
نہ کوئی تیر نہ کوئی سناں تمہاری طرف
نہ کوئی دریا نہ پربت نہ آشیاں نہ شجر
زمیں ہے کوئی نہ ہی آسماں تمہاری طرف
ظہور عشق کی دنیا کو چھوڑ آیا ہوں
میں خود کو کرتا ہوں سب سے نہاں تمہاری طرف
میں منزلوں سے بہت دور آ گیا مامونؔ
سفر نے کھو دیے سارے نشاں تمہاری طرف
غزل
بلا رہا ہے مجھے آسماں تمہاری طرف
خلیل مامون