EN हिंदी
بوالہوس میں بھی نہ تھا وہ بت بھی ہرجائی نہ تھا | شیح شیری
bul-hawas mein bhi na tha wo but bhi harjai na tha

غزل

بوالہوس میں بھی نہ تھا وہ بت بھی ہرجائی نہ تھا

صدیق افغانی

;

بوالہوس میں بھی نہ تھا وہ بت بھی ہرجائی نہ تھا
پھر بھی ہم بہروپیوں کو خوف رسوائی نہ تھا

آندھیوں نے سب مٹا ڈالے نقوش‌‌ رہ گزار
ریت کے سینے پہ داغ آبلہ پائی نہ تھا

رات کے کالے کنوئیں میں چھپ گیا سایہ مرا
اس سے پہلے تو کبھی یہ رنگ‌ تنہائی نہ تھا

وہم کا پیکر تھا آویزاں در و دیوار پر
کھڑکیوں میں چاند محو جلوہ آرائی نہ تھا

سبز پیڑوں کے تنے کٹ کٹ کے کیوں گرنے لگے
اے ہوا میں قتل و غارت کا تمنائی نہ تھا

روشنی دیتی تھی چمکیلے بدن کی تازگی
ورنہ میں چہرے کے خال و خد کا شیدائی نہ تھا

کیا تر و تازہ تھا آب صبح سے نخل‌ شفق
بجھتے سورج میں تو یہ انداز رعنائی نہ تھا

ایک اک کردار تھا اپنی اداکاری میں گم
اس تماشا گاہ میں کوئی تماشائی نہ تھا

مر گیا صدیقؔ کوہ غم سے ٹکر مار کر
سر میں سودا تھا مگر ذوق جبیں سائی نہ تھا