بجھتی ہوئی شمعیں ہوتی ہیں ڈوبے ہوئے تارے ہوتے ہیں
محفل کے اجڑنے سے پہلے آثار یہ سارے ہوتے ہیں
برباد محبت پر ایسا اک دور بھی آ ہی جاتا ہے
آغوش میں سورج ہوتا ہے پلکوں پہ ستارے ہوتے ہیں
یہ ظرف ہے ظرف فکر و نظر ہر ڈوبنے والا کیا جانے
بے بحر بھی طوفاں اٹھتے ہیں بے موج بھی دھارے ہوتے ہیں
نظارہ تو ہے بے پردہ مگر ہر دیکھنے والا کیا دیکھے
جو ظرف نظر میں آ نہ سکیں ایسے بھی نظارے ہوتے ہیں
طغیان حوادث کی ہمدم اتنی ہی نوازش کیا کم ہے
کشتی نہ سہی ساحل نہ سہی طوفاں تو ہمارے ہوتے ہیں
غزل
بجھتی ہوئی شمعیں ہوتی ہیں ڈوبے ہوئے تارے ہوتے ہیں
منظور حسین شور