EN हिंदी
بجھتی آنکھوں میں ترے خواب کا بوسہ رکھا | شیح شیری
bujhti aankhon mein tere KHwab ka bosa rakkha

غزل

بجھتی آنکھوں میں ترے خواب کا بوسہ رکھا

آلوک مشرا

;

بجھتی آنکھوں میں ترے خواب کا بوسہ رکھا
رات پھر ہم نے اندھیروں میں اجالا رکھا

زخم سینہ میں تو آنکھوں میں سمندر ٹھہرا
درد کو میں نے مجھے درد نے زندہ رکھا

ساتھ رہتا تھا مگر ساتھ نہیں تھا میرے
اس کی قربت نے بھی اکثر مجھے تنہا رکھا

وقت کے ساتھ تجھے بھول ہی جاتا لیکن
اک ہرے خط نے مرے زخم کو تازہ رکھا

میرا ایماں نہ ٹکا پائیں ہزاروں شکلیں
میری آنکھوں نے ترے پیار میں روزہ رکھا

کیا قیامت ہے کہ تیری ہی طرح سے مجھ سے
زندگی نے بھی بہت دور کا رشتہ رکھا