EN हिंदी
بجھی نہیں ابھی یہ پیاس بھی غنیمت ہے | شیح شیری
bujhi nahin abhi ye pyas bhi ghanimat hai

غزل

بجھی نہیں ابھی یہ پیاس بھی غنیمت ہے

ارمان نجمی

;

بجھی نہیں ابھی یہ پیاس بھی غنیمت ہے
زباں پہ کانٹوں کا احساس بھی غنیمت ہے

رواں ہے سانس کی کشتی اسی کے دھارے پر
یہ ایک ٹوٹی ہوئی آس بھی غنیمت ہے

نشاں نمو کے ہیں کچھ تو بساط صحرا پر
جھلستی جلتی ہوئی گھاس بھی غنیمت ہے

پھر اس کے بعد تمہاری شناخت کیا ہوگی
روایتوں کی یہ بو باس بھی غنیمت ہے

وہ اب بھی ملتا ہے اپنی ادائے خاص کے ساتھ
کہ وضع داری کا یہ پاس بھی غنیمت ہے