بجھے لبوں پہ تبسم کے گل سجاتا ہوا
مہک اٹھا ہوں میں تجھ کو غزل میں لاتا ہوا
اجاڑ دشت سے یہ کون آج گزرا ہے
گئی رتوں کی وہی خوشبوئیں لٹاتا ہوا
تمہارے ہاتھوں سے چھٹ کر نہ جانے کب سے میں
بھٹک رہا ہوں خلاؤں میں ٹمٹماتا ہوا
نگل نہ جائے کہیں بے رخی مجھے تیری
کہ رو پڑا ہوں میں اب کے تجھے ہنساتا ہوا
تو شاہزادی مہکتے ہوئے اجالوں کی
میں ایک خواب اندھیروں کی چوٹ کھاتا ہوا
مرا بدن یہ کسی برف کے بدن سا ہے
پگھل نہ جاؤں میں تجھ کو گلے لگاتا ہوا
تمہاری آنکھوں کا پانی کہیں نہ بن جاؤں
میں ڈر رہا ہوں بہت داستاں سناتا ہوا
غزل
بجھے لبوں پہ تبسم کے گل سجاتا ہوا
آلوک مشرا