بجھے بجھے سے چراغوں سے سلسلہ پایا
ہجوم یاس میں بھٹکے تو راستہ پایا
کسی خیال میں ابھرا امید کا چہرہ
کسی امید میں پرتو خیال کا پایا
نہ جانے کتنے گھروندوں کو ٹوٹتے دیکھا
کسی کھنڈر میں تمنا کا نقش پا پایا
تمام رات نیا بت تراشتے گزری
ہوئی جو صبح تو اس بت کو ٹوٹتا پایا
قدم قدم پہ ملے یوں تو قہقہے بکھرے
درون جسم کوئی شخص چیختا پایا
طلسم ٹوٹ گیا دھند چھٹ گئی شاہدؔ
کہیں پہ ٹھہر کے سوچیں کہ ہم نے کیا پایا
غزل
بجھے بجھے سے چراغوں سے سلسلہ پایا
شاہد ماہلی