بجھا سا رہتا ہے دل جب سے ہیں وطن سے جدا
وہ صحن باغ نہیں سیر ماہتاب نہیں
بسے ہوئے ہیں نگاہوں میں وہ حسیں کوچے
ہر ایک ذرہ جہاں کم ز آفتاب نہیں
وہ باغ و راغ کے دلچسپ و دل نشیں منظر
کہ جن کے ہوتے ہوئے خلد مثل خواب نہیں
وہ جوئبار رواں کا طرب فزا پانی
شراب سے نہیں کچھ کم اگر شراب نہیں
برنگ زلف پریشاں وہ موج ہائے رواں
کہ جن کی یاد میں راتوں کو فکر خواب نہیں
سما رہے ہیں نظر میں وہ مہوشان حرم
حرم میں جن کے ستارے بھی باریاب نہیں
وطن کا چھیڑ دیا کس نے تذکرہ اخترؔ
کہ چشم شوق کو پھر آرزوئے خواب نہیں
غزل
بجھا سا رہتا ہے دل جب سے ہیں وطن سے جدا (ردیف .. ن)
اختر شیرانی