بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں محبتوں کے دیے جلا کے
مری وفا نے اجاڑ دی ہیں امید کی بستیاں بسا کے
تجھے بھلا دیں گے اپنے دل سے یہ فیصلہ تو کیا ہے لیکن
نہ دل کو معلوم ہے نہ ہم کو جئیں گے کیسے تجھے بھلا کے
کبھی ملیں گے جو راستے میں تو منہ پھرا کر پلٹ پڑیں گے
کہیں سنیں گے جو نام تیرا تو چپ رہیں گے نظر جھکا کے
نہ سوچنے پر بھی سوچتی ہوں کہ زندگانی میں کیا رہے گا
تری تمنا کو دفن کر کے ترے خیالوں سے دور جا کے
غزل
بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں محبتوں کے دیے جلا کے
ساحر لدھیانوی