بجھ گئی شمع حرم باب کلیسا نہ کھلا
کھل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کھلا
در توبہ سے بگولوں کی طرح گزرے لوگ
ابر کی طرح امڈ آئے جو مے خانہ کھلا
شہر در شہر پھری مری گناہوں کی بیاض
بعض نظروں پہ مرا سوز حکیمانہ کھلا
نازنینوں میں رسائی کا یہ عالم تھا کبھی
لاکھ پہروں میں بھی دروازے پہ دروازہ کھلا
ہم پری زادوں میں کھیلے شب افسوں میں پلے
ہم سے بھی تیرے طلسمات کا عقدہ نہ کھلا
ایک اک شکل کو دیکھا ہے بڑی حسرت سے
اجنبی کون ہے اور کون شناسا نہ کھلا
ریت پر پھینک گئی عقل کی گستاخ لبی
پھر کبھی کشف و کرامات کا دریا نہ کھلا
غزل
بجھ گئی شمع حرم باب کلیسا نہ کھلا
مصطفی زیدی