EN हिंदी
بجھ گئی دل کی کرن آئینۂ جاں ٹوٹا | شیح شیری
bujh gai dil ki kiran aaina-e-jaan TuTa

غزل

بجھ گئی دل کی کرن آئینۂ جاں ٹوٹا

اقبال حیدر

;

بجھ گئی دل کی کرن آئینۂ جاں ٹوٹا
پر پرواز سمیٹے تو لہو سا پھوٹا

رسم آشفتہ سری میں ہیں گریباں دامن
فلک پیر بتا کون ہے سچا جھوٹا

چاند سورج ہوئے جاتے ہیں دھوئیں میں روپوش
جرس وقت کہاں آگ کا چشمہ پھوٹا

مرثیوں اور قصیدوں سے بھری ہے محفل
شہر آشوب سے ہر رشتۂ دانش ٹوٹا

شجر درد کی ہر شاخ ہے کشکول نما
سر کشیدہ ہے مگر باغ کا بوٹا بوٹا

وہی کیفیت چشم و دل و جاں ہے اقبالؔ
نہ کوئی ربط بنا اور نہ رشتہ ٹوٹا