بجھ گئی دل کی کرن آئینۂ جاں ٹوٹا
پر پرواز سمیٹے تو لہو سا پھوٹا
رسم آشفتہ سری میں ہیں گریباں دامن
فلک پیر بتا کون ہے سچا جھوٹا
چاند سورج ہوئے جاتے ہیں دھوئیں میں روپوش
جرس وقت کہاں آگ کا چشمہ پھوٹا
مرثیوں اور قصیدوں سے بھری ہے محفل
شہر آشوب سے ہر رشتۂ دانش ٹوٹا
شجر درد کی ہر شاخ ہے کشکول نما
سر کشیدہ ہے مگر باغ کا بوٹا بوٹا
وہی کیفیت چشم و دل و جاں ہے اقبالؔ
نہ کوئی ربط بنا اور نہ رشتہ ٹوٹا

غزل
بجھ گئی دل کی کرن آئینۂ جاں ٹوٹا
اقبال حیدر