EN हिंदी
بوسیدہ سہی زیب قبا تک نہیں آتی | شیح شیری
bosida sahi zeb-e-qaba tak nahin aati

غزل

بوسیدہ سہی زیب قبا تک نہیں آتی

عامر نظر

;

بوسیدہ سہی زیب قبا تک نہیں آتی
بے پیرہن جاں کو حیا تک نہیں آتی

آئینہ اجل کا یوں تہ خاک پڑا ہے
مرقد کی فصیلوں سے ضیا تک نہیں آتی

گم کردۂ ادراک میں پیوست جبینیں
در چشم یقیں بوئے وفا تک نہیں آتی

صحرا کی جبینوں پہ ہو شادابی تو کیسے
ان شعلوں پہ شبنم کی ردا تک نہیں آتی

دل رفعت دستار کی قامت پہ مگن ہے
بیتابیٔ منزل کف پا تک نہیں آتی

ہنگامۂ اوقات بھی ہے رقص فسوں بھی
امکان کی چوکھٹ پہ صدا تک نہیں آتی