بوسیدہ عمارات کو مسمار کیا ہے
ہم لوگوں نے ہر راہ کو ہموار کیا ہے
یوں مرکزی کردار میں ہم ڈوبے ہیں جیسے
خود ہم نے ڈرامے کا یہ کردار کیا ہے
دیوار کی ہر خشت پہ لکھے ہیں مطالب
یوں شہر کو آئینۂ اظہار کیا ہے
بینائی مرے شہر میں اک جرم ہے لیکن
ہر آنکھ کو رنگوں نے گرفتار کیا ہے
درپیش ابد تک کا سفر ہے تو بدن کو
کیوں بار کش سایۂ اشجار کیا ہے

غزل
بوسیدہ عمارات کو مسمار کیا ہے
گلزار وفا چودھری