بولتی آنکھیں دیکھیں جاگتے لب دیکھیں
جو صورت ہم نے دیکھی ہے سب دیکھیں
جانے فضا میں کب چلتی ہے موج ہوا
بادل ہٹ کر چاند دکھائے کب دیکھیں
آنکھیں بند کریں تو کیا کیا جلوے ہیں
ہر سو گھور اندھیرے لپکیں جب دیکھیں
چندا چمکے کلیاں چٹکیں پھول کھلیں
جس دن اس کو دیکھیں خواب عجب دیکھیں
جسم اک راہ گزر ہے دل مٹی کا دیا
گل ہوتا ہے کب یہ چراغ شب دیکھیں
شاید نور سحر پھیلا ہو اب ہر سو
عارفؔ دل پر پتھر رکھ کر اب دیکھیں
غزل
بولتی آنکھیں دیکھیں جاگتے لب دیکھیں
منظور عارف