بولتے بولتے جب صرف زباں رہ گئے ہم
تب اشارے سے بتایا کہ کہاں رہ گئے ہم
ہمیں اتنی بڑی دنیا کا پتہ تھوڑی تھا
جہاں ہم تم ہوا کرتے تھے وہاں رہ گئے ہم
ہم مکاں بھی تھے مکیں بھی تھے کہ بازار تھا گرم
پھر خسارہ ہوا اور صرف مکاں رہ گئے ہم
دیر تک خالی مکاں خالی نہیں چھوڑتے ہیں
آپ تب تھے ہی نہیں آپ کے ہاں رہ گئے ہم
گھر ہی ایسا تھا یہ کچھ دوہری مسہری والا
اپنا رہنے کے علاوہ بھی یہاں رہ گئے ہم
ایک آواز کے دو حصے ہوئے ٹھیک ہوا
تم وہاں رہ گئے خاموش یہاں رہ گئے ہم
پاؤں درزوں میں ٹکائے ہوئے سر رخنوں میں
اس نہاں خانے میں رہ رہ کے عیاں رہ گئے ہم
غزل
بولتے بولتے جب صرف زباں رہ گئے ہم
شاہین عباس