بولے گا کون عاشق نادار کی طرف
سارا زمانہ آج تو ہے یار کی طرف
جن آنکھ سے لیا تھا دل اب وہ رہی نہ آنکھ
حیرت سے دیکھتا ہوں رخ یار کی طرف
درباں کبھی جو روکے وہ نازک مزاج ہیں
منہ کر کے سوئیں ہم نہ در یار کی طرف
ہارے ہوئے ہو بوسوں کا کر لو ابھی حساب
فاضل ہے کچھ ہمارا ہی سرکار کی طرف
بیٹھا ہے کب سے منتظر یاں پر نگاہ مہر
دیکھ آنکھ اٹھا کے طالب دیدار کی طرف
پڑتی ہے جبکہ ابروئے قاتل پہ میری آنکھ
رہ رہ کے دیکھتا ہے وہ تلوار کی طرف
داغ ریا شراب سے دھونے کے واسطے
زاہد چلا ہے خانۂ خمار کی طرف
بلبل نے کی بہار میں کس یاس سے اک آہ
چاک قفس سے دیکھ کے گلزار کی طرف
پڑھتا ہوں فاتحہ میں سوئے قبر کوہ کن
ہوتا ہے جب گزر کبھی کہسار کی طرف
یوں دل پہ میرے پڑتی ہے آنکھ اس کی جس طرح
جلاد دیکھتا ہے گنہ گار کی طرف
کرتا ہے شوق دل کے عوض مول حسن کا
دلال بولتا ہے خریدار کی طرف
آئینہ ساں ہوں آمد دلبر کا حیرتی
رخ سوئے در ہے پشت ہے دیوار کی طرف
پھولوں میں یہ کہاں خلش خار کا مزا
جانا جنوں نہ دشت سے گلزار کی طرف
برباد کر نہ خاک مری اے ہوائے شوق
لے چل اڑا کے کوچۂ دل دار کی طرف
کون اب کرے ہماری طرف داری اے قلقؔ
دل تک ہے اپنا اپنے دل آزار کی طرف
غزل
بولے گا کون عاشق نادار کی طرف
ارشد علی خان قلق