بستر ہجر کی شکنوں پہ کہانی لکھ دے
آج کی رات مرے نام سہانی لکھ دے
بیتے سالوں کی طرح دشمن جانی لکھ دے
اب کے خط میں تو کوئی بات پرانی لکھ دے
پیاس اس ریت کی اشکوں سے بجھاؤں کیسے
خشک دریا کے مقدر میں بھی پانی لکھ دے
حسن کا ڈھلنا ضروری ہے مگر اے مالک
اس کے چہرے پہ مرے دل کی جوانی لکھ دے
خوش نویس آ کہ ترا فن بھی مہک جائے گا
برگ سرسبز پہ اک رات کی رانی لکھ دے
جتنا چاہے مجھے غم اور عطا کر لیکن
اس کے ہونٹوں پہ تبسم کی روانی لکھ دے

غزل
بستر ہجر کی شکنوں پہ کہانی لکھ دے
سید ضیا علوی