بساط شوق کے منظر بدلتے رہتے ہیں
ہوا کے رنگ برابر بدلتے رہتے ہیں
بتان رنگ بھی کچھ کم نہیں ہیولوں سے
قدم قدم پہ یہ پیکر بدلتے رہتے ہیں
چھپائے چھپتی نہیں ان سے کہنگی دل کی
نئے لباس وہ ہر دم بدلتے رہتے ہیں
رہی نہیں کبھی یک رنگ آسماں کی جبیں
حروف لوح مقدر بدلتے رہتے ہیں
قیام کرتا نہیں دل میں چار دن کوئی
مکین خانۂ بے در بدلتے رہتے ہیں
بہت نیا تھا جو کل اب وہی پرانا ہے
مزار دہر کے پتھر بدلتے رہتے ہیں
غزل
بساط شوق کے منظر بدلتے رہتے ہیں
زاہد فارانی