EN हिंदी
بساط رنگ و بو آتش فشاں معلوم ہوتی ہے | شیح شیری
bisat-e-rang-o-bu aatish-fishan malum hoti hai

غزل

بساط رنگ و بو آتش فشاں معلوم ہوتی ہے

لکشمی نارائن فارغ

;

بساط رنگ و بو آتش فشاں معلوم ہوتی ہے
رگ گل میں نہاں برق تپاں معلوم ہوتی ہے

تمنا ہی سے قائم ہے وقار‌ نوجوانی بھی
تمنا گرچہ جنس رائیگاں معلوم ہوتی ہے

کنارہ ہے کوئی اس کا نہ اس کا کوئی ساحل ہے
محبت ایک بحر بیکراں معلوم ہوتی ہے

گذشتہ وارداتوں پر میں جب بھی غور کرتا ہوں
مجھے ہر واردات اک داستاں معلوم ہوتی ہے

وفا کوشی کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے پیری میں
وفا پروردۂ فکر جواں معلوم ہوتی ہے

اثر باقی ابھی تک ہے نگاہوں میں جوانی کا
مجھے ہر ایک شے اب بھی جواں معلوم ہوتی ہے

جفا و جور کے قصے ہیں اب بھی معتبر فارغؔ
وفا کی بات زیب داستاں معلوم ہوتی ہے