EN हिंदी
بساط دانش‌ و حرف و ہنر کہاں کھولیں | شیح شیری
bisat-e-danish-o-harf-o-hunar kahan kholen

غزل

بساط دانش‌ و حرف و ہنر کہاں کھولیں

فضا ابن فیضی

;

بساط دانش‌ و حرف و ہنر کہاں کھولیں
یہ سوچتے ہیں لب معتبر کہاں کھولیں

عجب حصار ہیں سب اپنے گرد کھینچے ہوئے
وجود کی وہی دیوار در کہاں کھولیں

پڑاؤ ڈالیں کہاں راستے میں شام ہوئی
بھنور ہیں سامنے رخت سفر کہاں کھولیں

یہاں شعور کے ناخن تو ہم بھی رکھتے ہیں
مگر یہ عقدۂ‌ فکر و نظر کہاں کھولیں

نہ اس کے ساتھ ہمارا بھی مول ہونے لگے
ہیں کشمکش میں کہ مشت گہر کہاں کھولیں

ہوا ہے تیز نہ اس کے ورق اڑا لے جائے
صحیفۂ نفس مختصر کہاں کھولیں

بچائیں آبرو جسموں کی بھیڑ میں کیسے
ہے کھولنی گرہ جاں مگر کہاں کھولیں

کوئی فضاؔ تو ملے ہم کو قابل‌ پراوز
اب ان حدوں میں بھلا بال و پر کہاں کھولیں