بنا روئے گزرنا اس گلی سے
لگا ایسا گئے ہم زندگی سے
جیا ہوں عمر بھر میں بھی اکیلا
اسے بھی کیا ملا ناراضگی سے
ہوں جس کا منتظر اگلے جنم تک
ملی تو کیا کہوں گا اس پری سے
لہو میں روز اپنے ہی نہانا
میں عاجز آ گیا ہوں شاعری سے
جھلک اک موت کی دیکھے تو مانوں
جسے ڈر لگ رہا ہے زندگی سے
کوئی پھر سے دلائے ایک جیون
تھکن ہوتی نہیں آوارگی سے
کئی جذبوں کا گھر تھا جیسے میں بھی
مری پرتیں کھلیں دیوانگی سے
کئی چہرے دکھے پر بعد ان کے
محبت ہو گئی بے چہرگی سے
کسی صورت الگ ہونے نہ پائی
تری تصویر میری شاعری سے
کھڑا جب سے ہوں میں اپنے مقابل
الجھتا ہی نہیں ہوں میں کسی سے
تری یادیں ہیں یا سورج ہے کوئی
یہ آنکھیں بجھ رہی ہیں روشنی سے
امیدیں تھی ہمیں بھی چاند سے پر
محبت ہے اسے اب تیرگی سے
ضرورت کیا ہے من میں جھانکنے کی
کرو، گر بات کر پاؤ ندی سے
مرے آنسو جو تم جھرنے سے بہہ جاؤ
سمندر تک پہنچ جاؤں اسی سے
غزل
بنا روئے گزرنا اس گلی سے
نونیت شرما