بلا جواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
اٹک گئی ہے ستارے میں اک پتنگ مری
پھر ایک روز مرے پاس آ کر اس نے کہا
یہ اوڑھنی ذرا قوس قزح سے رنگ مری
جو کائنات کنارے سے جا کے مل جائے
وہی فراغ طلب ہے زمین تنگ مری
میں چیختے ہوئے صحرا میں دور تک بھاگا
نہ جانے ریت کہاں لے گئی امنگ مری
فنا کی سرخ دوپہروں میں رقص جاری تھا
رگیں نچوڑ رہے تھے رباب و چنگ مری
لہو کی بوند گری روشنی کا پھول کھلا
پھر اس کے بعد کوئی اور تھی ترنگ مری
غزل
بلا جواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
دانیال طریر