EN हिंदी
بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو | شیح شیری
bikti nahin faqir ki jholi hi kyun na ho

غزل

بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو

رؤف خیر

;

بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو
چاہے رئیس شہر کی بولی ہی کیوں نہ ہو

احسان رنگ غیر اٹھاتے نہیں کبھی
اپنے لہو سے کھیل وہ ہولی ہی کیوں نہ ہو

سچ تو یہ ہے کہ ہاتھ نہ آنا کمال ہے
دنیا سے کھیل آنکھ مچولی ہی کیوں نہ ہو

ہے آسماں وسیع زمیں تنگ ہی سہی
تعمیر کر کہیں کوئی کھولی ہی کیوں نہ ہو

حق پر جو ہے وہی سر و شانہ بلند ہے
ہے ورنہ بے بساط وہ ٹولی ہی کیوں نہ ہو

دریا کی کیا بساط کہ مجھ کو ڈبو سکے
کشتی کہیں کہیں مری ڈولی ہی کیوں نہ ہو

تلخی میں بھی مزہ ہے جو تو خوش مذاق ہے
پک جائے تو بھلی ہے نمولی ہی کیوں نہ ہو

کچھ تو حدیث خیرؔ سمجھنے کے کر جتن
ہر چند بے مزہ مری بولی ہی کیوں نہ ہو