بکھری تھی ہر سمت جوانی رات گھنیری ہونے تک
لیکن میں نے دل کی نہ مانی رات گھنیری ہونے تک
درد کا دریا بڑھتے بڑھتے سینے تک آ پہنچا ہے
اور چڑھے گا تھوڑا پانی رات گھنیری ہونے تک
آگ پہ چلنا قسمت میں ہے برف پہ رکنا مجبوری
کون سنے گا اپنی کہانی رات گھنیری ہونے تک
اس کے بنا یہ گلشن بھی اب صحرا جیسا لگتا ہے
لگتا ہے سب کچھ بے معنی رات گھنیری ہونے تک
خون جگر سے ہم کو چراغاں کرنا ہے سو کرتے ہیں
اپنی ہے یہ ریت پرانی رات گھنیری ہونے تک
جن ہونٹوں نے پیاسے رہ کر ہم کو اپنے جام دیے
یاد کرو ان کی قربانی رات گھنیری ہونے تک
دل میں اپنے زخم تمنا آنکھوں میں کچھ خواب لیے
برسوں ہم نے خاک ہے چھانی رات گھنیری ہونے تک
غزل
بکھری تھی ہر سمت جوانی رات گھنیری ہونے تک
شایان قریشی