بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون
لوگ تیرے جرم دیکھیں گے سبب دیکھے گا کون
ہاتھ میں سونے کا کاسہ لے کے آئے ہیں فقیر
اس نمائش میں ترا دست طلب دیکھے گا کون
لا اٹھا تیشہ چٹانوں سے کوئی چشمہ نکال
سب یہاں پیاسے ہیں تیرے خشک لب دیکھے گا کون
دوستوں کی بے غرض ہمدردیاں تھک جائیں گی
جسم پر اتنی خراشیں ہیں کہ سب دیکھے گا کون
شاعری میں میرؔ و غالبؔ کے زمانے اب کہاں
شہرتیں جب اتنی سستی ہوں ادب دیکھے گا کون

غزل
بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون
معراج فیض آبادی