بکھرا ہوں جب میں خود یہاں کوئی مجھے گرائے کیوں
پہلے سے راکھ راکھ ہوں پھر بھی کوئی بجھائے کیوں
عیسیٰ نہ وہ نبیؐ کوئی ادنیٰ سا آدمی کوئی
پھر بھی صلیب درد کو سر پہ کوئی اٹھائیں کیوں
سارے جو غم گسار تھے کب کے رقیب بن چکے
ایسے میں دوستوں کوئی اپنا یہ غم سنائے کیوں
یکتا وہ ذات اکبری دل یہ حقیرو اصغری
اتنی وسیع شے بھلا دل میں مرے سمائے کیوں
پلتا ہمارے خوں سے ہے عشق مگر عدو سے ہے
اپنا نہیں جو بے وفا ہم کو یوں آزمائے کیوں
صبح کا وقت آئے تو خود ہی بجھے گا یہ چراغ
اس کو سحر سے پیشتر کوئی مگر بجھائے کیوں
جس پر گری ہے برق بھی جس پہ ہوا کی ہے نظر
شاخوں میں ایسی اے سحابؔ گھر بھی کوئی بنائے کیوں
غزل
بکھرا ہوں جب میں خود یہاں کوئی مجھے گرائے کیوں
اجے سحاب