EN हिंदी
بکھرا ہے کئی بار سمیٹا ہے کئی بار | شیح شیری
bikhra hai kai bar sameTa hai kai bar

غزل

بکھرا ہے کئی بار سمیٹا ہے کئی بار

نعیم ضرار احمد

;

بکھرا ہے کئی بار سمیٹا ہے کئی بار
یہ دل ترے اطراف کو نکلا ہے کئی بار

جس چاند کے دیدار کی حسرت میں ہے دنیا
وہ شام ڈھلے گھر مرے اترا ہے کئی بار

سن کر تجھے مدہوش زمانہ ہے مجھے دیکھ
جس نے تری آواز کو دیکھا ہے کئی بار

افسوس کہ ہے عشق یگانہ سے بہت دور
یارو تمہیں ہر روز جو ہوتا ہے کئی بار